حضرت روم سے منسوب ہے ، ” اپنی آواز کی بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجیے، پھول بادل کے گرجنے سے نہیں، بادل کے برسنے سے اگتے ہیں”۔ رضا احمد کا نام حضرت رومی کی نسبت سے ہی جانا جاتا ہے، ، میرا ان سے پہلا باقاعدہ تعارف ایک جرمن مصنف کی صوفی موسیقی پر لکھی گئی کتاب کے حوالے سے ہوا، جہاں مصنف خود موجود تھے اور اس نشست کا اہتما م رضا رومی کی جانب سے ہی کیا گیا تھا، جرمن مصنف ڈاکٹر جورگن وسیم اس دھرتی کے صوفیا اور ان سے منسوب موسیقی پر گہری دسترس رکھتے ہیں، لیکن اس محفل میں رضا رومی سے صوفیا اکرام او ر سلاسل طریقت پر ہوئی گفتگو ناچیز کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ثابت ہوئی، اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا، عموما آرا میں ہم آہنگی ہی دیکھنے کو ملی لیکن اختلاف بھی مسکراہٹوں کا مرہون منت رہا۔
رضا رومی کی فکر اور سوچ کے پیچھے ان کے آباواجداد کاخاصا اثر ہے، بڑے بوڑھے کتابوں کے رسیا تھے، اہل خانہ کی کیا بات کیجیے کہ گھر کے درو دیوار بھی علم و حکمت سے سجے ہیں، والدین کی ذاتی لائبریری کئی تعلیمی اداروں کے کتب خانوں سے بڑی اور نادر کتب پر مشتمل ہے۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ رضا رومی کا منظر عام پر آنا دو چار دنوں کی بات نہیں۔ ہر گز نہیں۔ ایک پڑھے لکھے خاندان سے وابستگی ہے جوعلمی اور ادبی طور پر ایک مضبوط تاریخی پس سے جڑی ہے۔ اور یہی وابستگی رضا کو بتدریج پروان چڑھاتی رہی۔
رضا رومی کی فکر اور سوچ کے پیچھے ان کے آباواجداد کاخاصا اثر ہے، بڑے بوڑھے کتابوں کے رسیا تھے، اہل خانہ کی کیا بات کیجیے کہ گھر کے درو دیوار بھی علم و حکمت سے سجے ہیں، والدین کی ذاتی لائبریری کئی تعلیمی اداروں کے کتب خانوں سے بڑی اور نادر کتب پر مشتمل ہے۔
ان صاحب کی والدہ محترمہ بلقیس ریاض اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں، ناول، سفر نامے ، افسانے لکھنے کے علاوہ ممتاز اخبارات اور میگزینز میں کالم نگار رہ چکی ہیں۔ والد صاحب چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر تعینات رہے ہیں، ، ورثے میں کچھ اور ملا ہو یا نہیں، البتہ کتب خانے سے واسطہ بچپن سے ہی رہا ہے ، شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ رضا نے مقابلے کے امتحان میں انیس سو ترانوے چورانوے میں پاکستان بھر میں ٹاپ کیا تھا ، اور پھر دو ہزار دو تک سرکاری ملازم رہے، بعد ازاں ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ساتھ پبلک پالیسی ایکسپرٹ کی حیثیت سے وابسطہ ہو گئے۔ لیکن زبان و بیان کے اظہار نے موصوف کو چین نہ لینے دیا، اور پھر صحافت میں آن کودے۔ دہلی دل سے۔ اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے موضوع پر کتب لکھ چکے ہیں۔
چلیے گھڑی بھر کو مان لیا کہ رضا رومی کے نظریات قابل سوال ہیں، یا رضا کو صوفیا اور اسلاف کی تعلیمات سے کوئی ربط نہیں، اور انہیں مسلمان ہونے کا ‘سرٹیفکیٹ’ بھی درکار ہے، تو؟ اسکا مطلب یہ ہے کہ انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے؟!
اور اس بے چارے پچیس سالہ مصطفی کو کس ناکردہ گناہ کی سزا ملی کہ اسے بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑا؟ ابھی تو اس نوجوان ڈرائیور کی شادی کو چند ماہ ہی گزرے تھے۔ بیوہ کا سہاگ اجاڑنے والے کیا ہوئے؟ کون جانتا ہے کہ ماں باپ کی رحلت کے بعد مصطفی چار بہن بھائیوں کا اکلوتا کفیل تھا، کیا مصطفی بھی کالم نویس تھا؟ مصطفی شاید اقلیتوں کے حقوق کے لیے سراپا احتجاج رہا ہو گا، یقینا مصطفی موثر قانون سازی اور جمہوری اقدار کے حق میں اہل محلہ سے الجھتا ہو گا، یہ ڈرائیور خبطی تھا، مذہب کے نام پر خود کش حملوں کی مخالفت کرتا تھا، اور انتہا پسندی کو مذہبی تعلیمات سے بدل ڈالنے کے حق میں دلائل دیتا تھا۔ یقینا اسی لیے حملہ آوروں نے مصطفی کو بھی لگے ہاتھوں اڑا ڈالا۔ یہاں ایسے شخص کا یہی انجام ہوتا ہے۔
کہاں سرکار دو عالمﷺ اور ان کی تعلیمات اور کہاں آج ہم کھڑے ہیں، کہاں رحمت العالمین ﷺ کے عاشقین صوفیا ئے کرام اور ان کی صوفی شاعری اور کہاں ہمارے حرام حلال اور کافر مسلمان کی بحث کرتے مخصوص علما دین۔ اب ایسے حالات میں اختلاف رائے بھلا کیونکر برداشت ہو؟ لیکن رضا ! یاد رکھیے گا، اقبال نے کہا تھا؛
پیر رومی مرشد روشن ضمیر
کاروان عشق و مستی را امیر
پیر رومی مرشد روشن ضمیر
کاروان عشق و مستی را امیر
حیرت ہے کہ رضا نے آخر ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ جس کے بعد ‘نامعلوم’ افراد کے پاس ان کی جان لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا۔ میں ذاتی طور پر رضا کی حالیہ تمام تحریریں اور ٹاک شوز کا جائزہ لے چکا ہو، یقین جانیں کوئی قابل اعتراض نقطہ ہاتھ نہیں آیا۔
اب چند روز پہلے کی بات ہے کہ ڈرٹی اولڈ مین خشونت سنگھ ننانوے برس کی عمر میں چل بسے۔ اس بابے نے ہمیشہ متنازعہ ایشوز پر دل کھول کر بھڑاس نکالی، جواباً پڑھنے والوں نے بھی انہیں ہمیشہ غیر اخلاقی القابات سے ہی یاد کیا، کئی فتوے صادر کئے گئے، گالیوں سے نوازا گیا، خبطی قرار دیا گیا، ایک جگہ خود کہنے لگے کہ ان کے کسی چاہنے والے نے انہیں ساٹھ کی دہائی میں امریکہ سے ایک پوسٹ کارڈ ارسال کیا ، جو تقریبا دو دہائیوں بعد انہیں موصول ہوا ، کھولنے سے پہلے ایکسائٹڈ ہوئے کہ اتنی دور سے مدت بعد کسی چاہنے والے کا پوسٹ کارڈ موصول ہوا ہے نہ جانے کیا لکھا ہو گا۔ پڑھا تو مزید ہنس دیئے،سر شام واک پر نکلے تو کارڈ ہاتھ میں رکھا، ٹہلتے رہے، اور مسکراتے رہے، کسی دوست نے پوچھا کہ سردار جی ایسا کیا ہے اس کارڈ میں جو آپ مسکراتے جار رہے ہیں، کہنے لگے کہ بھئی، ہنسی مارے افسوس کے نکلی ہے کہ کسی نے گالیوں سے شاندار تواضع کی اور ہماری بد قسمتی کہ ظالم کارڈ نے ہم تک پہنچنے میں اس قدر تاخیر کر دی۔ پھر کہا کہ شکر ہے چاہنے والے نے بندوق نہیں تان لی اور محض گالیوں کے تیر چلا کر رانجھا راضی کر لیا۔ ننانوے برس کے اس بابے پر شاید ہی کسی نے گولی چلائی ہو، یہی بابا اگر پاکستان میں ہوتا اور وہی کچھ لکھتا جو اس نے ہندوستان میں بیٹھ کر لکھا تو یقین جانئے سردار جی ننانوے برس تو دور کی بات ، شاید نو ماہ بھی زندہ نہ رہ پاتے۔
حیرت ہے کہ رضا نے آخر ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ جس کے بعد ‘نامعلوم’ افراد کے پاس ان کی جان لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا۔ میں ذاتی طور پر رضا کی حالیہ تمام تحریریں اور ٹاک شوز کا جائزہ لے چکا ہو، یقین جانیں کوئی قابل اعتراض نقطہ ہاتھ نہیں آیا، ابھی تک ان کی صرف خیریت ہی دریافت کر سکا ہوں، ملاقات ابھی باقی ہے۔ جس کا مقصد ان کی خیریت دریافت کرنا نہیں بلکہ یہ جاننا ہو گا کہ بھیا، آف دی ریکارڈ ہی بتلا دو کہ آخر آپ جناب نے ایسا کونسا پاپ کیا تھا کہ آپ کی تواضع دلائل کی بجائے بندوق سے کرنے کی کوشش کی گئی۔ مجھے امید ہے رضا ایک اچھے دوست کی طرح اس راز سے پردہ ضرور اٹھائیں گے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس راز کو راز ہی رکھوں گا اور ایسے کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہونے کی
حتی الوسع سعی تا دم مرگ جاری رکھوں گا جو رضا سے سر زد ہوا۔ البتہ رضا رومی کو مولانا روم کا کہا ضرور سناؤں گا۔
بر زمیں گر نیم گز راہے بود
آدمی بے وہم ایمن می رود
بر زمیں گر نیم گز راہے بود
آدمی بے وہم ایمن می رود
رہا معاملہ مصطفی کا تو مصطفی کے لیے یقینا مصطفیﷺ ہی کافی ہیں۔ کیونکہ دین اسلام کی تعلیمات تو یہی کہتی ہیں کہ جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔
حضرت روم نے کہا تھا “اپنی آواز کی بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجیے، پھول بادل کے گرجنے سے نہیں، بادل کے برسنے سے اگتے ہیں”۔
حضرت روم نے کہا تھا “اپنی آواز کی بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجیے، پھول بادل کے گرجنے سے نہیں، بادل کے برسنے سے اگتے ہیں”۔
(اجمل جامی بحیثیت اینکر اور نمائندہ خصوصی دنیا نیوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ممبئی حملہ اور پاک بھارت میڈیا کے کردار پر ان کا تحقیقی مقالہ کتاب کی صورت میں چھپ چکا ہے۔ ملکی سیاسی اور معاشرتی منظر نامے پر لالٹین اور دنیا بلاگز کے لئے باقاعدگی سے لکھتے ہیں)
0 comments:
Post a Comment